Translate

Urdu section

این جی اوز اور رضا کاروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کرونا وائرس کے بحران کے دوران ضرورت مندوں کی مدد کریں


مقامی این جی او نے ایک رضاکار تحریک پروگرام کا آغاز کیا ہے جس میں کرونا وائرس کے بحران  کے دوران شہریوں کو خوراک، طبی سہولیات کی تقسیم، خون کے عطیات کی فراہمی، عوامی آگاہی کی مہم سمیت دیگر شہری خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔


==============================

11 April 2020.
Chief minister SINDH Murad Ali Shah live yesterday


=============================

کورونا وائرس:امید کی کرن نظر آنے لگی



کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس وبا ء سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں جس کے بعد اس وائرس کے سامنے پوری دنیا بالکل بے بس نظر آنے لگی ہے تاہم پہلے دن سے ہی ڈاکٹرز اور سائنسدان اس مرض کی دوا ڈھونڈنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور اب لگتا ہے کہ امید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی کورونا ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر عطا الرحمان کا ایک ویڈیو بیان سامنےآیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں میں کوروناوائرس کے علاج سے متعلق ریسرچ جاری ہے، اور اب لگتا ہے کہ ہم اس وباء پر قابو پانے پر ضرور کامیاب ہوجائیں گے،
فرانس میں ایک تحقیقاتی ٹیم نے ایک ریسرچ شائع کی ہےجس میں ایک ہزار سے زائدمریضوں پر کلینیکل ٹرائل کیا گیا ٹرائل کے دوران مریضوں کو ہائیڈروکلورو کوئین اور ایزتھرومائسن کا مجموعہ استعمال کرایا گیا، جس کے 93 فیصدمثبت نتائج سامنے آئے، اور اموات کی شرح صرف صفر اعشاریہ 5 فیصد رہی۔
ڈاکٹر عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ اس وائرس سے بچے بوڑھے، جوان سب متاثر ہوئے ہیں لیکن زیادہ تر اس کا شکار 60سال سے زیادہ عمر کے افراد ہوئے ہیں، متاثرہ افراد اگر کم عمر کے ہوں تو اموات کی شرح کم ہوتی ہے لیکن اگر وائرس کا شکار شخص 60 سال سے زیادہ کا ہے اور اسے کوئی اور بیماری بھی لاحق ہے تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے،
پاکستان میں کلینیکل ٹرائلز کے وسائل سے متعلق ڈاکٹر عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ جی ہاں پاکستان میں مریضوں کی تعداد اب اتنی ہوگئی ہے کہ ہر 1500 مریضوں پر کلینیکل ٹرائل کیا جاسکتا ہے،تاہم ادویات کی مناسب مقدار میں دستیابی کویقینی بنانا پڑے گا جس کیلئے میں نے گیٹس فارما کےہیڈ سے بات کی تھی اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ اس دوا کی مناسب مقدار کی دستیابی کو یقینی بنائیں۔

ڈاکٹر عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ جلد دنیا کورونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی، کچھ جڑی بوٹیا ں جو پاکستان میں پائی جاتی ہیں جن سے بنائی جانے والی ادویات کے کورونا وائرس کے خلاف مثبت نتائج مرتب ہوسکتے ہیں
تاہم پاکستان میں ان ادویات کی تیاری میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی کیونکہ حکومت اس معاملے پر کسی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کررہی،
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں پایا جانے والا کورونا وائرس ووہان کے وائرس سے تھوڑا مختلف ہے اس پر مزید ریسرچ کیلئے ہم ایک سو مختلف مریضوں کے وائرس کے نمونے لیں گے اور پتا چلائیں گے کہ اس وائرس کی کتنی اقسام ہیں
جو ادویات بنائی جاتی ہیں وہ زیادہ تر ایک وائرس کی تمام ساختوں کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں اس لیے کورونا کیلئے بنائی جانے والی ادویات بھی اس کی ہر قسم کیلئے مددگار ثابت ہوں گی۔

==============================

کورونا وائرس: چین سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟

عوامی جمہوریہ چین کے اقدامات اُور تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دنیا کے کئی ملک کورونا وائرس کے خلاف کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اُور یہاں یہ نکتۂ بھی لائق توجہ ہے کہ دیگر ممالک کے برعکس چین نے ’کورونا وائرس‘ کے خلاف انفرادی تجربات کو پوشیدہ نہیں رکھا بلکہ ہر اُس ملک کی مدد کی‘ جس نے چین کے خلوص اُور خیرسگالی کے جذبے کو سمجھا۔اِس سلسلے میں قابل ذکر ہے کہ چین نے جہاں کوروناوائرس کے خلاف طبی عملے کی تربیت کا انتظام و اہتمام کیا ‘وہیں ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کی مالی‘ تکنیکی اُور ایسے طبی آلات کی فراہمی کی صورت بھی مدد کی‘ جن کے استعمال سے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج معالجہ ممکن ہوسکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ چین دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو ’کورونا وائرس‘ کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے اُور اِس سے متاثرہ مریضوں کے علاج سے متعلق سب سے زیادہ معلومات اور عملی تجربات رکھتا ہے۔ دنیا عجائبات کا گھر ہے۔ چند ماہ قبل تک کوئی اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ ملک جہاں سے دسمبر 2019ء میں کورونا وائرس ظاہر ہوا لیکن اُس نے چند ہی ہفتوں میں ’اَن دیکھے دشمن‘ پر قابو پا لیا اُور جلد ہی یہ نتیجہ سامنے آیا کہ چین میں ایک ماہ (تیس دن) کے دوران صرف 99 نئے لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے جبکہ کورونا وائرس سے متاثر دیگر ممالک کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ ترجیحات کے تعین میں اگر چین کی پیروی نہ کرے تو اُس کے سامنے دیگر کون کون سی مثالیں موجود ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے چین کے تجربات صرف کسی ایک ملک ہی کا نہیں بلکہ دنیا کا اثاثہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ’عالمی ادارہ صحت (World Health Organization) نے چین کی کامیابیوں کا اعتراف کیا ہے جن کی ترجمان ڈاکٹر ماریہ وان کریکوؤ (Dr. Maria Van Kerkhove) نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران ایک موقع پر کہا اُور اُن کا یہ منسوب بیان تاریخ کا حصہ (آن دی ریکارڈ) ہے کہ ’’دنیا کے سامنے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے چین کی اختیار کردہ حکمت عملی رکھنی چاہئے۔ اِس سلسلے میں چین کے تجربات اُور اِن تجربات کے حاصل شدہ نتائج نہایت ہی اہم ہیں کیونکہ چین جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے اُور اُسے کیا کرنا ہے۔ بنیادی بات یہ رہی کہ کسی وبا کے بارے میں عوام تک شعور اُور درست معلومات بروقت پہنچائی گئیں جن سے ممکن ہوا کہ کورونا وائرس پھیلنے سے رک گیا۔عوام انفرادی حیثیت میں خود بھی محفوظ رہے اُور اپنے گردوپیش میں رہنے والوں سمیت اہل عیال کا خیال رکھنے جیسی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے رہے۔ کورونا وائرس کے خلاف اِنفرادی سے اِجتماعی حیثیت تک چین کی حکومت اُور عوام نے جس انداز سے ذمہ دارانہ طرزعمل کا مظاہرہ کیا وہ دنیا کے لئے بینظیر مثال ہے۔‘‘چینی خبررساں ادارے ’سی جی ٹی این‘ نے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ فیس بک پر عوامی رائے جاننے کے لئے ایک سروے کا اہتمام کیا جس میں دنیا بھر کے فیس بک صارفین سے پوچھا گیا سوال اُور اُس کے نتائج نہایت ہی دلچسپ رہے۔ سوال یہ تھا کہ چین کے شہر ووہان (Wahan) میں نمودار ہونے والے ’کورونا وائرس‘ کے پھیلنے کو روکنے کے لئے چودہ روز کا لاک ڈاؤن اُور اِس لاک ڈاؤن پر سوفیصدی کامیابی سے عمل درآمد کرانا کیا درست حکمت عملی تھی؟ 74 فیصد فیس بک صارفین جن میں اکثریت یورپی و امریکی ممالک سے تعلق رکھتی تھی نے چین کی تعریف کی جبکہ 26 فیصد نے ’لاک ڈاؤن‘ کے فیصلے کو غلط قرار دیا لیکن اِس قسم کے درجنوں رائے عامہ پر مبنی جائزوں کی صورت چین کی کامیابیوں کا شمار نہ بھی کیا جائے اُور صرف اُن 5 حقائق (بنیادی باتوں اُور عملی اقدامات) کا ذکر کیا جائے‘ جس کی وجہ سے آج چین کی کورونا وائرس کے خلاف حکمت عملی دنیا سے مختلف اُور کامیاب دکھائی دیتی ہے تو اِس نتیجۂ خیال کی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے بڑی اہمیت ہے اُور یقینا پاکستان چین سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔پہلا اُور فوری قابل اقدام یہ تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلنے کے 3 دن بعد چین نے متاثرہ شہر اُور اُس سے ملحقہ دیگر علاقوں میں سماجی دوری اختیار کرنے کے لئے ’لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کردیا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلے میں دن اُور ہفتے نہیں بلکہ مہینے لگے اُور یہی وجہ رہی کہ کورونا وائرس پھیلتا چلا گیا۔ چین کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ووہان شہر میں موجود وائرس ملک کے دیگر حصوں تک بڑے پیمانے پر نہیں پہنچ پایا۔ تین دن میں ’لاک ڈاؤن‘ کرنے کا فیصلہ اِس لئے خاص تھا کہ یہ دنیا میں پہلی مرتبہ کیا گیا اُور اِسے چین کی قیادت نے طبی ماہرین کے مشورے کو سنتے ہوئے اختیار کیا۔ لاک ڈاؤن کسی بھی صورت آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن چین کی قیادت نے طبی ماہرین کی رائے کو توجہ سے سُنا اُور کورونا وائرس کے انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے واحد امکان کو روک دیا۔ تصور کیجئے کہ چین کا وسطی صوبہ ہوبے (Hubei) کا ایک شہر جس کی آبادی 1 کروڑ 40 لاکھ (14 ملین) نفوس سے زیادہ ہے اُور اگر اُسے اچانک مکمل طور پر بند کرنا پڑ جائے تو اِس فیصلے تک پہنچنے کے لئے حکومت کتنی سوچ بچار اُور مشاورت سے گزری ہوگی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ چوبیس جنوری کے روز‘ جس وقت ووہان شہر کو لاک ڈاؤن کیا جا رہا تھا تو یہ موقع چین میں نئے سال کے آغاز سے صرف ایک دن پہلے کا موقع تھا اُور پورا شہر ملک کے دیگر حصوں کی طرح نئے سال کی آمد کے موقع پر برقی قمقموں اُور تقاریب کی تیاریاں کئے منتظر تھا۔ چین کے نئے سال کے موقع پر 3 ارب لوگ سفری سہولیات کا استعمال کرتے ہیں اُور یہ مقامی سیاحتی صنعت کے لئے ایک نہایت ہی اہم کاروباری و تجارتی موقع سمجھا جاتا ہے۔ اگر چین نئے سال کے موقع پر ووہان شہر کو لاک ڈاؤن نہ کرتا اُور اربوں کی تعداد میں مسافر دو طرفہ آمدورفت کرتے تو یقینی امر تھا کہ کورونا وائرس زیادہ تیزی اُور پورے چین میں پھیل چکا ہوتا اُور تب اُس سے نمٹنا آسان نہ ہوتا۔ یہی وجہ تھی خطرے کی شدت اُور اِس کی تباہی کا بروقت احساس کرتے ہوئے وقت ضائع نہیں کیا گیا اُور فوری طور پر ’ووہان‘ شہر میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا

چین کا دوسرا کارنامہ یہ رہا کہ اِس نے صرف 10 دن میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لئے 1000 بستروں پر مشتمل ہسپتال بنایا‘ جس میں 30 بستروں پر مبنی انتہائی نگہداشت کا ایک مرکز بھی شامل تھا۔ عمومی حالات میں اِس قسم کا ہسپتال بنانے کے لئے کم سے کم آٹھ ماہ درکار ہوتے ہیں لیکن چین نے صرف دس روز میں وہ کردکھایا جس کا دنیا نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ بنیادی ضرورت یہ تھی کہ ووہان شہر میں پہلے سے موجود تمام سرکاری و نجی علاج گاہیں کورونا متاثرین سے بھر چکی تھیں‘ جس کے بعد یہی صورت باقی تھی کہ ایک نیا ہسپتال بنایا جاتا اُور پھر چین نے وہ کر دکھایا جو اِس برق رفتار و پائیدار تعمیروترقی کے لئے مشہور قوم کے بارے میں رائے رکھی جاتی ہے کہ یہ اپنے کام میں مہارت کے علاؤہ محنت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ دس روز میں تیار ہونے والے ہسپتال کی صورت چین نے دنیا کو پیغام دیا کہ بروقت فیصلوں کے بعد دوسری ترجیح اِن قومی فیصلوں کو برقی رفتاری سے عملی جامہ پہنانا بھی ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف چین کی کامیاب حکمت عملیوں کا تیسرا پہلو حکومتی احکامات و اقدامات پر عوام کا اعتماد تھا۔ جب حکومت کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ 1: گزشتہ چند دنوں میں ووہان شہر سے آنے والے سے ملاقات یا 2: ووہان شہر کا دورہ کر کے واپس لوٹنے والے 3: ووہان شہر کے کسی آئے کسی مہمان کی میزبانی یا 4: کورونا سے متاثرہ کسی مریض سے جانے انجانے ملاقات یا 5: جسم کا درجۂ حرارت مستقل زیادہ رہنے کی صورت میں ہر شخص خود کو ’14 روز کے لئے الگ تھلگ (quarantine) کر لے تو اِن احکامات کو پورے چین میں نہایت ہی سنجیدگی سے سنا گیا اُور اِن کی اہمیت کو سمجھا گیا۔ حکومتی اعلان کا مذاق نہیں اُڑایا گیا اُور نہ ہی سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ذہن نشین رہے کہ کورونا وائرس 14 روز تک انسانی جسم میں بنا کوئی علامات ظاہر کئے چھپا (incubate) رہ سکتا ہے۔ چین کی کورونا وائرس کے خلاف چوتھی کامیابی ’عوام کا غیرمشروط تعاون‘ تھا جنہوں نے ووہان شہر کے علاؤہ گھروں میں رہنے اُور حسب ضرورت بازاروں میں جانے کے وقت سخت حفاظتی اقدامات اختیار کئے۔ چہروں پر ماسک پہنے گئے۔ سپر مارکیٹس سے لیکر عام دکانداروں تک تاجروں نے سماجی دوری کا احترام کرتے ہوئے نئے قواعد و ضوابط بنائے اُور گاہگوں کے جسمانی درجۂ حرارت کو ناپنے سے لیکر اُن کے ہاتھ دھلوانے اُور مفت ماسک (mask) فراہم کئے تاکہ ایسے انجان افراد اپنے آس پاس دیگر کو متاثر نہ کر سکیں‘ جنہیں خود اپنے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا علم نہیں۔ دنیا کے لئے چین کا پانچواں عملی پیغام یہ تھا کہ سماجی دوری اختیار کرتے ہوئے گھروں سے دفتری و کاروباری سرگرمیاں جاری رکھی جائیں۔ اِس سلسلے میں قریب 12فیصد مرد اُور ساڑھے تیرہ فیصد خواتین نے گھروں سے کام کاج شروع کیا جبکہ گھر بیٹھے (آن لائن) خریداری کرنے کا رجحان بھی عام ہوا جس سے قریب 13 فیصد مردوں اُور 32فیصد خواتین نے استفادہ کیا۔ اِسی طرح چین دنیا کا ایسا واحد ملک بنا جہاں لاک ڈاؤن کے دوران سب سے زیادہ فاصلاتی تعلیم عام ہوئی اُور 66 فیصد عوام نے گھروں میں فارغ بیٹھنے کی بجائے اپنا وقت تعلیم یا کوئی ہنر سیکھنے کے لئے مختص کیا۔ اِن چھیاسٹھ فیصد عوام میں 33 فیصد خواتین اُور 34فیصد مرد شامل تھے جبکہ 21 فیصد خواتین کے مقابلے قریب 28 فیصد مردوں نے فارغ اوقات میں ورزش اُور گھروں میں رہتے ہوئے (indoor) کھیل کود میں حصہ لیا۔ چین سے حاصل 5 اسباق کا خلاصہ اگر کسی ایک جملے میں کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ ہنگامی حالت میں افراتفری اُور تاخیر کی بجائے چین کی حکومت اُور عوام نے اپنے حواس پر قابو رکھا۔ طبی ماہرین کے مشوروں کو خاطرخواہ اہمیت دی اُور ثابت کر دیا کہ قومیں صرف وسائل کی بہتات ہی سے نہیں بلکہ قومی شعور کی بلندی سے حاصل یک سوئی‘ نظم و ضبط کے عظیم الشان مظاہرے اُور اجتماعی ذمہ داری کے احساس سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر ایک نئی تاریخ رقم کر سکتی ہیں۔








1 comment: